نصرت الٰہی کے اسباب:::::
حضرات:قرآن مجید میں اہل ایمان کے گروہ سے خدا نے نصرت و حمایت کے بے شمار وعدے کئے ہیں،ان کے سر پر عزت و احترام کے تاج زریں سجا کر انہیں خلافت ارضی کی گراں بار ذمداری سونپی،ان کی تائید و حمایت کے لئیے نزول ملائکہ کا مژدہ جا نفزا سنایا،ان کے دشمنوں کو بے نام و نشان کرکے ان سے اسکان فی الارض کا عہد و پیمان باندھا،تاریخ کے طویل دورانیہ میں کتنی ہی مرتبہ ایسا ہوا کہ ان کے دشمن لاؤ لشکر کے ساتھ ان کے مقابلے میں آئے،ایسا محسوس ہوا کہ آج چراغ اسلام کو کفر و شرک کے تند و تیز آندھیاں بجھا کر رکھ دیں گی،خرمن اسلام پر شرکیہ بجلیاں کوندیں گی،اور اسے جلا کر راکھ کردیں گی،لیکن جب مقابلہ ہوا تو اچانک نصرت خداوندی کا نزول ہوا،اور بازی پلٹ کر رکھ دی گئ،کمزور و بے بس سمجھے جانے والا گروہ فتح و کامرانی کا پھریرا لہراتا ہوا لوٹا اور کبر و نخوت سے اکڑی ہوئی گردنیں کاٹ دی گئیں،تکبر و تعلی سے پھولے ہوئے سینے خاک و خون میں لتھیڑ دئے گئے۔۔۔فرمان خدا وندی ہے؛کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ۔۔۔
حضرات؛لیکن کیا بات ہے کہ نصرت خداوندی کی یہ باد بہاری منقطع ہوگئ،عنایات ربانی کا سلسلہ رک گیا،اور وہی لوگ جو لاؤ و لشکر کی کمی کے باوجود فتح و کامرانی کے علم لہرائے پھرتے تھے،ذلت و نکبت کے ایسے غار میں گرے کے پستیاں بھی طنزیہ مسکراہٹ سے ان کا استقبال کررہی ہیں،بات دراصل یہ ہیکہ ہم میں پہلی والی صفات باقی نہیں رہیں،اسبابِ نصرت الٰہی مفقود ہوگئے،اب شوق شہادت کی جگہ وہن نے لے لی،جرأت و بیباکی کو مصلحت و موقع پرستی کے مشؤوم کفن میں لپیٹ کر اکابر پرستی کی چوکھٹ پر دفن کردیا گیا،خدا ترس،دور اندیش،جرأت مند قائدین کی جگہ ابن الوقت،مصلحت پرست،عافیت کوش،اور زندگی کے دلدادہ افراد نے لے لی،اب وہ باطل سے خائف اور شیطان کے ہرکاروں سے لرزاں و ترساں ہیں،اگر نصرت خداوندی کی پہلے والی بھار دیکھنا ہے تو ان تحریکات سے کلی برأت کا اظہار کرنا ہوگا،جن کی پیشانی پر کانگریس کی مطلقہ اور بی جے پی کی داشتہ ہونے کا منحوس نشان کندہ ہے،یاد رکھیں،اس تند و تیز طوفان کا مقابلہ بوڑھی و خائف قیادت سے نہیں کیا جاسکتا،اور نہ نصرت الٰہی ایسی قیادت پر آسکتی ہے،جس کے جھنڈے و قائدین خدا بیزار جماعتوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوں،
حضرات:ہم پر اللہ کی مدد کیسے آئے نہ ہمارے پاس ایمان و ایقان کی وہ تجلیات ہیں جو ہمیں میدان کار زار میں قائم رکھ سکیں،اور نہ ہمارے پاس توکل و یقین کا وہ دست ہے جو مسائل کی گھتیاں سلجھا سکے،نہ ایمانی بصیرت اور مؤمنانہ فراست ہے،نہ علم و ادب ہے،نہ ھتھیار و قوت کی فراوانی،اگر مدد الہی مطلوب ہے تو دین حنیف پر از سر نو ایمان لانا ہوگا،کیوں کہ نصرت الٰہی کا وعدہ جانفزا اہل ایمان سے ہے،لاتھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین،نماز و صبر کے ذریعہ استعانت طلب کرنا ہوگی کیوں کہ فرمان الہی ہے،واستعینوا بالصبر والصلوۃ،باھمی محبت و اخوت پیدا کرنا ہوگی،واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا واذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون:اور محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفایہ رحماء بینھم تراھم رکعا و سجدا یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا تبھی رحمت الہی کا نزول ہوگا،یہی نصرت و فتح کا طریق ہے،انہی راستوں سے ماضی میں اللہ کی مدد آئ ہے،اور آگے بھی ان ہی صفات سے آئی گی۔۔۔اب ۔میں اپنی تقریر کو اس شعر پر ختم کرتا ہوں،۔۔۔
یہ تصویر تو ارطغرل کی ہے جناب،،،،،اورعثمان تو ان کے صاحبزادہ تھے
ReplyDelete