حضرات،،،
آج پورا عالم اسلام خاک و خون میں لتھڑا ہوا ہے،ہر کس و ناکس پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،خلافت اسلامیہ جو امت کا سہارا ہوتی تھی جانے کب کی داستانِ پارینہ بن گئ،جہاد و جذبۂ جہاد جو امت کو سیف و سناں کا مالک بناتا تھا مفقود بلکہ معیوب بن چکا،عالم اسلام کی بخیا ادھیڑ دی گئ،اس کے حصہ بخرے کرکے اس پر ایسے بے غیرت حکمراں بیٹھا دئے گئے جو امت کے مستقبل پر سیاہ و بدنما دھبہ ہیں،مصر، فلسطین،شام،عراق،افغانستان کے بعد اب ہندوستان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جانے کی تیاریاں مکمل ہوچکیں،ایسے میں امت کا آخری سہارا ذات خداوندی بچی ہے،جہاں سے اعانت و امداد کی امیدیں ہمیشہ قائم رہتی ہیں،لیکن ہزاروں قربانیاں دینے کے بعد بھی اللہ کی نصرت نہیں آئ،معصوم بچوں کو ذبح کیا گیا،عفت مآب بھنوں کی آبرو پر ڈاکہ ڈالے گئے ماؤں کے آغوش میں ان کے نو نہالوں کو ذبح کر دیا گیا،اسپتال و اسکول تک کو مہلک بموں کو نشانہ بنا کر تباہ کردیا گیا،امت درد سے کراہتی رہی،منابر و محاریب میں سر پیٹ پیٹ کر دہائیاں دیتی رہی،ملتزم و غلاف کعبہ سے چمٹ کر دعائیں مانگی لیکن اللہ کی مدد نازل نہیں ہوئ،فرشتے فتح کی بشارتیں لیے نہیں آئے،اور مستقبل قریب میں اس معجزہ کے رونما ہونے کے اسباب بھی نظر نہیں آتے ہیں،
حضرات:ایسا اس لئے ہوا،کیوں کہ ہم ان صفات سے عاری تھے جو رحمت خداوندی کی باعث ہوتی ہیں،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا،کما تکونون کذالک یؤمر علیکم۔تم جیسے رہوگے تم پر ویسے ہی امراء مسلط کئے جائیں گے،آج ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں تو پتہ چلیگا ہم ایمان و یقین کی کیفیات سے کوسوں دور،حق گوئ و راست بازی سے نا آشنا،باھمی اخوت و محبت سے خالی،ہمارے دل معرفت خداوندی،توکل و ایثار،للہیت و تقوی،اور جذبات ترحم سے نا واقف،اور اس کے بالعکس صفات سے بھرے ہوئے ہیں،ہمارا معاشرہ ان تمام بیماریوں کا شکار ہے،جن کے سبب ماضی میں سینکڑوں اقوام کو پیوند خاک بنا دیا گیا تھا،لہذا جب تک ہم صفات تقوی سے آراستہ ہو کر نبوی راہ عمل کو اختیار نہیں کریں گے،نصرت الہی کا نزول نہیں ہوگا۔۔۔
سامعین کرام:قرآن مجید وہ صاف و شفاف آئینہ ہے جو ہمیں اس گروہ کی تصویر دکھلاتا ہے جس پر عنایات ربانی کا نزول ہوا تھا،اس پاکباز و پاک نفس جماعت کی صفات کا اظہار کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے،محمد رسول اللہ،والذین معہ اشدآء علی الکفایہ رحماء بینھم تراھم رکوا سجدا یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا۔۔ایک جگہ ان کے عشق خداوندی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد ہوتا۔۔رجال لاتلھیھم تجارۃ ولابیع عن ذکر اللہ۔۔نصرت خداوندی کا مستحق یہ گروہ قرآن کا چلتا پھرتا معاشرہ بن جاتا ہے اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ یہ معیار حق ہیں،ان جیسے بنوں گے تو کامیابی و الطاف ربانی ملیں گے،بصورت دیگر ناکام و نامراد ہوجاؤگے۔۔۔واذا قیل لھم آمنو کما آمن الناس قالوا انؤمن کما آمن السفھاء،،،ھر نماز کی ہر رکعت میں اس مؤید گروہ کی اتباع کا مطالبہ ہوتا ہے،اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم،،،آج ہم نے ان مقربین کی راہ مستقیم کو چھوڑ دیا ہے،اور ضالین و مغضوب علیھم کی راہوں پر چل پڑے ہیں،اسی لئے ہم سے مدد الہی اٹھا لی گئی،اور ہم دنیا کی سب سے ذلیل و بے دست و پا قوم بن گئے اگر نصرت الٰہی چاہئے تو اسی گروہ کی راہوں پر چلنا پڑیگا،
No comments:
Post a Comment